توروالی موسیقی کے البم ” منجُورا“ کا ایک تعارف

تحریر و تحقیق

عمران خان آذاد  

 اہل علم سے سنا ہے کہ موسیقی ایسی با ترتیب اور باقاعدہ آوازوں کو کہتے ہیں جو انسانی کانوں اور طبیعت پر خوشگوار اثر چھوڑے۔  موسیقی نا صرف گلوکار کے گلے یا سازوں سے نکلنے والی آواز ہے بلکہ فطرت میں بھی اسے جا بجا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جیسے بارش کی بوندوں کی جھنکار،  چلتی ہوا کی سرسراہٹ اور ندی کے چلتے پانی کی گنگناہٹ یہ سب موسیقائی آوازیں ہیں۔فطرت میں موجود آواذوں کو جب انسان نے محسوس کیا تو مختلف الات کی بدولت ان آوازوں کو نقل کرنا چاہا اور یہی سے موسیقی نے جنم لیا۔  دنیا کی کوئی قوم یا ثقافت ایسی نہ گزری ہے اور نہ  گزرے گی  کہ جس کے ہاں کسی نا کسی صورت میں موسیقی موجود نہ ہو۔ البتہ دنیا کی کلتوری تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ معاشی اور سیاسی لحاظ سے طاقت ور استعماری قوموں نے دوسری اقوام پر بھی اپنے کلچر کو مسلّط کیا اور یوں ان کمزور قوموں کی اپنی دیسی کلچر و موسیقی دم توڑ گئے اور وہ انسانی حسِ  جمال  و زینت کی تشفّی کے لیے اغیار کی موسیقی کو اپنانے لگے۔

 حقیقت میں موسیقی  ایک ایسی انسانی قدر مشترک ہے کہ جس کا نہ کوئی بارڈر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی نسل۔ یہ جو تقسیم کی جاتی ہے وہ موسیقی کی مختلف  دھنوں اور آواذوں کی وجہ سے کی جاتی ہے ورنہ موسیقی پر کوئی بھی قوم دعوی نہیں کرسکتی۔ موسیقی کے ساتھ انسان جس زبان میں گاتا ہے اور اس کے لیے جو الات استعمال کرتا ہے  وہ زبان اسے مختلف کردیتے ہیں۔

 اج کی جدید دنیا میں لگتا ہے کہ موسیقی اور جمالیات پر بھی چند ایک اداروں اور قوموں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ آئے روز جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جو ہمیں سنایا  جاتا ہے ایسا گمان ہوتا ہے کہ دنیا میں موسیقی صرف ان ہی اقوام کے پاس ہے اور باقی بس ان ہی  کے ذوق کے  خوگر ہوجاتے ہیں۔ جن اقوام کی موسیقی کو اجکل جو شہرت و مقبولیت حاصل ہے وہ  ابلاغ کے جدید  ذرائع  ہیں کہ جن کا حصول  اور استعمال ان دولت مند اقوام کےلیے ممکن ہے ۔ کلچر اور تہذیبوں میں اس تقسیم سے جہاں ہر شعبہ ذندگی میں دُوئی پیدا ہوئی ہے وہاں  کلچر خود اس کا شکار ہوا ہے۔  یہ تقسیم اس طرح کی جاتی ہے۔ کہ ایک کو  ”ہائی کلچر“ یعنی اعلی ثقافت قرار دیا گیا ہے اور دوسرے کو  ”فوک“ یعنی لوک کلچر کہا گیا ہے۔ مگر ماہرین علم بشریات  لوک کلچر کی تعریف یوں کرتے ہیں  ”یہ کسی قوم کی مشترک روایات، خیالات، رسم و رواج،  رہن سہن اور جمالیاتی و سماجی سانچے اور ساختیں ہوتی ہیں جو ہمہ وقت متحرّک ہوتی ہیں اور جن میں اس سماج کے عوام  حصّہ لیتے ہیں“۔ جبکہ ہائی کلچر میں کسی سماج کے عوام حصّہ نہیں لیتے۔ ایک اشرافیہ اس سے مزا لیتی ہے جبکہ عوام کا اس سے کوئی خاص تعلق نہیں  رہتا۔ اس ہائی کلچر کی مثال ٹی وی سکرین  پر روز دیکھی جاسکتی ہے۔ لوک کلچر کا تعلق عوام سے ہوتا ہے اور عوام کے ذریعے ہی یہ اگے بڑھتا ہے۔ اس کی اہم مثال ہمارے پہاڑی مگر دیسی  indigenous   قومیتیوں کی لوک شاعری ہے جسے لوگ  مخلتف موقعوں پر گاتے ہیں اور یوں یہ سینہ بہ سینہ اگے بڑھتی ہے۔ تاہم جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ میں گذشتہ دو تین دہائیوں میں انقلاب کی وجہ سے اب ان روایات کو سخت خظرات لاحق ہیں۔ ایسے میں  لوک ورثے اور خزانے“ کو محفوظ کرکے اگر جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہماری نئی نسلوں تک پہنچایا جائے تو بلاشبہ انسانی مشترک کلتوری و تہذیبی ورثے میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے پہاڑی سلسلے   ہندوکش، قراقرم، پامیر اور ہمالیہ  کے برفیلے پہاڑ نہ صرف اپنے قدرتی حسن کے بدولت مشہور ہیں بلکہ یہ علاقے اپنے روایتی  موسیقی کے حوالے سے بھی ہمشہ سے معروف رہے ہیں۔ ان برف پوش پہاڑی درّوں میں سے کہیں ستار کے ساز پر رقص کی جھنکار سنائی دیتی ہے تو کہیں بانسری کی سریلی دھن پر مقامی لوک گیت سنائی دیتے ہیں۔ فطرت کے قریب رہنے والے  بیشتر لوگ داردی زبانیں بولتے ہیں جن کا تعلق ہند آریائی Indo-Aryan زبانوں سے ہے۔ ان ہی  میں ایک زبان توروالی ہے۔  توروالی ایک مشہور داردی ہند آریائی Indo-Aryan زبان ہے اور یہ ہندوکش کے دامن میں واقع سوات کوہستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق  توروالی بولنے والوں کی موجودہ  تعداد ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار (100,000—120,000 ) ہے۔ یہ لوگ ضلع سوات کے بالائی وادئ بحرین (بحرین تا کالام) اور مدین کے مشرق میں وادئ اُلال (چیل، بشیگرام، شنکُو اور ان سے منسلک گاؤوں) میں بستے ہیں۔ ان کے علاوہ توروالی پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، کوئٹہ، حیدراباد، راولپنڈی، مینگورہ، پشاور، نوشہرہ میں بھی مستقل طور پر آباد ہوئے ہیں۔تورالی زبان کی دو لہجے Dialects ہیں جن کو ’سنکیان ‘ اور ’چیل ‘ لہجہ کہا جاتا ہے۔ دوسری زبانوں کی طرح توروالی بھی اپنے اندر لوک ادب و ورثے کے خزانے لیے ہوئی ہے۔ اس کے لوک  شاعری میں  ایک خاص دو مصرعی شعر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس عوامی صنف کو توروالی  میں ڙو کہا جاتا ہے جو گاؤری زبان میں  ”رو“ بن  جاتا ہے۔ یہ  پشتو زبان کے ٹپے اور  ”بدَلہ“ کی طرح عوامی ہے۔   ڙو اب بھی گایا جاتا ہے ہے لیکن جو مقبولیت اس کی پرانے زمانوں میں تھی وہ ظاہر ہے  ویڈیو اور  ابلاغ کے نئے ذرائع کی فروانی کی وجہ سے اب مانند پڑگئی ہے مگر خواتین اور بڑوں میں اج بھی یہ اتنا مقبول ہے کہ وہ اسے سنتے ہی جھوم جاتے ہیں اور   کہیں کہیں اس کی غمیں تاثر کی وجہ سے   سننے والوں کی آنکھیں پر نم ہوجاتی ہیں۔ اس صنف کے جدید طرز پر ویڈیو کے ساتھ ایک  توروالی البم کو سننے کا موقع ملا جس کا نام  ”منجُورا“  رکھا گیا ہے۔   توروالی میں منجُورا کے معانی تحفے کی ہے جسے  پشتو میں ڈالئی کہا جاتا ہے اور گاؤری   میں   اسے بانیک یا تحفو  کہتے ہیں۔

منجُورا توروالی زبان کے گیتوں کا ایک البم ہے جو ادارہ برائے تعلیم و ترقی (ا ب ت) کی طرف سے ہم داردی لوگوں کے لئے تحفہ ہے۔ ادارہ برائے تعلیم و ترقی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جسے یہاں کے رہنے والے کچھ مقامی جوانوں نے 2007 میں قائم کیا ہے، اس تنظیم نے قلیل عرصے میں نہ صرف توروالی بلکہ داردی زبانوں کی ترویج اور ترقی کے کئی منصوبے کامیابی سے مکمل کئے ہیں۔  منجُورا  اور گذشتہ شینا اور بروشسکی میں اعلی معیار کے لوگ گانے اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔

 منجُورا“ البم اس ادارے نے 2015ء میں ریکارڈ کروایا اور اس کے لئے خطیر رقم خرچ کی۔ منجُورا میں چھ (6) ٹریک شامل ہیں جن میں توروالی لوگ شاعری کی دو بنیادی اصناف ”ڙو“ اور ”پھل“ کے مختلف انداز شامل ہیں۔ ساتھ علاقے سوات کوہستان کے بارے میں ایک جدید نظم بھی شامل ہے۔ تین ٹریکس ڙو پر ہے جن میں ایک خالص فوک طرز سے گائے ہوئے ڙو ، دوسری قدرے مختلف طریقے سے ڙو اور تیسرے میں  ڙو کو ”دُوبھا“ کی شکل میں گایا گیا ہے۔ البم کو توروالی کے مشہور گائیگوں نے گایا ہے۔ ڙو کو فوک طرز میں محمد زیب نے گایا ہے جبکہ دُوبھا میں ان کا ساتھ بخت روان توروالی نے دیا ہے۔ ڙو کو قدرے جدید مگر انوکھے طریقے سے رحیم صابر نے اپنی سریلی آواذ میں گایا ہے۔ بخت روان نے اپنا پھل خود گایا ہے اور اسے فلمایا بھی خود ہی ہے۔ سوات کوہستان کے حسن اور آب و ہوا پر عبدالوہاب کا لکھا ہوا پھل ریاض گورنیوال نے گایا ہے جن کا لہجہ توروالی کا چیل والا لہجہ ہے۔ یہ پھل بلاشبہ ترانہ سوات کوہستان ہے۔ البم میں موسیقی میں داردی زبانوں کے مشہور و معروف ستارباز میر افضل استاد نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ رباب گوجال گلگت بلتستان کے مشہور و معروف موسیقار دولت ولی بیگ نے بجایا ہے۔ اس البم کے ویڈیو میں مقامی ثقافت کی جھلکیاں دکھائی گئی ہیں۔ ساتھ سوات کے کوہستان کے مشہور و معروف مقامات کے نظارے موجود ہیں۔ ویڈیو میں اداکاری ادارہ برائے تعلیم و ترقی (ا ب ت) کی مرکزی ٹیم نے اس مجبوری کی وجہ سے کی ہے کہ اس وقت کوئی ویڈیو میں ریکارڈ ہونے کے لیے تیار نہ ہوا۔ ویسے ادارے سے منسلک یہ خوبرو توروالی نوجوان آفتاب احمد، مجاہد توروالی، رحیم صابر، سجاد احمد کسی  بھی ہیرو سے کم  نہیں۔ توروالی کے جدید شاعری کے ہیرے جاوید اقبال توروالی اور نور رحمان توروالی نے بھی ڙو کی کلاسک گائیکی پر اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ ادارہ برائے تعلیم و ترقی سربراہ زبیر توروالی اپنی ٹیم کے ساتھ اس البم میں حصّہ لیا ہے بلکہ علاقے پر توروالی نظم ” اُلال، گُورنال“ کو لکھا بھی انہوں نے ہی ہے۔  مجھے یہ البم بہت بھایا۔ چاہا کہ اپکےسا تھ بھی  یہ  مٹھاس  شئیر کروں۔ بلاشبہ ادارہ برائے تعلیم و ترقی اور اس کی ٹیم سب داردی اور ان جیسی دوسری قومیتوں کے لئے مشعل راہ ہے۔

 

1۔ دُوبھا سننے کے لیے اس لنک پر کلک کریں


https://www.youtube.com/watch?v=1xc2EnK5wI8&t=191s

2۔ ژو قدیم یعنی کلاسک سننے کے لیے اس لنک پر کلک کریں


https://www.youtube.com/watch?v=MoP6xfsVTVw

3۔ ژو جدید طرز میں سننے کے لیے یہ لنک کلک کریں


https://www.youtube.com/watch?v=ARQLwwlz31w

4۔ پھل قدیم سنیں یہاں


https://www.youtube.com/watch?v=loC5giaIVUg

5۔ پھل جدید یہاں سنیں


https://www.youtube.com/watch?v=-SdghhaNugI

6۔ ترانہ کوہستان یہاں سنیں


https://www.youtube.com/watch?v=sOALlCjNji8